فقیرانہ آئے صدا کر چلے

فقیرانہ آئے صدا کر چلے
by میر تقی میر
293772فقیرانہ آئے صدا کر چلےمیر تقی میر

فقیرانہ آئے صدا کر چلے
کہ میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے

جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
سو اس عہد کو اب وفا کر چلے

شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی
کہ مقدور تک تو دوا کر چلے

پڑے ایسے اسباب پایان کار
کہ ناچار یوں جی جلا کر چلے

وہ کیا چیز ہے آہ جس کے لیے
ہر اک چیز سے دل اٹھا کر چلے

کوئی ناامیدانہ کرتے نگاہ
سو تم ہم سے منہ بھی چھپا کر چلے

بہت آرزو تھی گلی کی تری
سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے

دکھائی دیئے یوں کہ بے خود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے

جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی
حق بندگی ہم ادا کر چلے

پرستش کی یاں تک کہ اے بت تجھے
نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے

جھڑے پھول جس رنگ گلبن سے یوں
چمن میں جہاں کے ہم آ کر چلے

نہ دیکھا غم دوستاں شکر ہے
ہمیں داغ اپنا دکھا کر چلے

گئی عمر در بند فکر غزل
سو اس فن کو ایسا بڑا کر چلے

کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میرؔ
جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.