فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں

فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
by اکبر الہ آبادی

فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں

معرفت خالق کی عالم میں بہت دشوار ہے
شہر تن میں جب کہ خود اپنا پتا ملتا نہیں

غافلوں کے لطف کو کافی ہے دنیاوی خوشی
عاقلوں کو بے غم عقبیٰ مزا ملتا نہیں

کشتئ دل کی الٰہی بحر ہستی میں ہو خیر
ناخدا ملتے ہیں لیکن با خدا ملتا نہیں

غافلوں کو کیا سناؤں داستان عشق یار
سننے والے ملتے ہیں درد آشنا ملتا نہیں

زندگانی کا مزا ملتا تھا جن کی بزم میں
ان کی قبروں کا بھی اب مجھ کو پتا ملتا نہیں

صرف ظاہر ہو گیا سرمایۂ زیب و صفا
کیا تعجب ہے جو باطن با صفا ملتا نہیں

پختہ طبعوں پر حوادث کا نہیں ہوتا اثر
کوہساروں میں نشان نقش پا ملتا نہیں

شیخ صاحب برہمن سے لاکھ برتیں دوستی
بے بھجن گائے تو مندر سے ٹکا ملتا نہیں

جس پہ دل آیا ہے وہ شیریں ادا ملتا نہیں
زندگی ہے تلخ جینے کا مزا ملتا نہیں

لوگ کہتے ہیں کہ بد نامی سے بچنا چاہئے
کہہ دو بے اس کے جوانی کا مزا ملتا نہیں

اہل ظاہر جس قدر چاہیں کریں بحث و جدال
میں یہ سمجھا ہوں خودی میں تو خدا ملتا نہیں

چل بسے وہ دن کہ یاروں سے بھری تھی انجمن
ہائے افسوس آج صورت آشنا ملتا نہیں

منزل عشق و توکل منزل اعزاز ہے
شاہ سب بستے ہیں یاں کوئی گدا ملتا نہیں

بار تکلیفوں کا مجھ پر بار احساں سے ہے سہل
شکر کی جا ہے اگر حاجت روا ملتا نہیں

چاندنی راتیں بہار اپنی دکھاتی ہیں تو کیا
بے ترے مجھ کو تو لطف اے مہ لقا ملتا نہیں

معنیٔ دل کا کرے اظہار اکبرؔ کس طرح
لفظ موزوں بہر کشف مدعا ملتا نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse