فلک قتل سبط پیمبر ہے کل

فلک قتل سبط پیمبر ہے کل
by میر تقی میر
313527فلک قتل سبط پیمبر ہے کلمیر تقی میر

فلک قتل سبط پیمبر ہے کل
یہ ہنگامہ ہونا مقرر ہے کل
سحر شام تیرہ سے بدتر ہے کل
بلا کل مکل ہے کہ محشر ہے کل

کہاں ہوگا افسر سر شہ کہاں
یہ خیمہ کہاں اور خرگہ کہاں
جو کچھ ہے حشم آج سو یہ کہاں
نہ حاکم نہ یاور نہ داور ہے کل

نہ ہوگا کوئی جو کرے داوری
رہے گی وہ لاش اس زمیں پر پڑی
نگہبان ہوگا خداے قوی
مصیبت عجیب ایک اس پر ہے کل

نہ ہوگا کوئی یار و انصار آہ
نہ خویش و برادر نہ رتبہ نہ جاہ
مرے گا بہت ہوکے بیکس وہ شاہ
نہ قاسم نہ اکبر نہ اصغر ہے کل

جو بازو ہیں جاویں گے سب دے کے جاں
نظر جس کے اوپر کرے سو کہاں
ستم ہوگا چاروں طرف سے عیاں
نہ احمدؐ معاون نہ حیدر ہے کل

نہ عباس ہوگا نہ ہوگا علم
کہ ہاتھ اس کا بازو سے ہوگا قلم
رہیں گے جو پیچھے کسان حرم
سو ان کو نہ جاگہ نہ گھر در ہے کل

سر شہ نہ ہوگا یہ اسرار ہے
کسان حرم اور بازار ہے
رہے گا جو سجاد بیمار ہے
سو اس کو نہ دارو نہ بستر ہے کل

معزز حرم کے رہیں گے جو لوگ
پریشاں پھریں گے گرفتار سوگ
اسیری و غارت سے چالوں کو روگ
نہ پردہ انھوں کو نہ چادر ہے کل

جہاں جاے عبرت ہے کیا اعتبار
ہمیشہ نہیں ایک کا اختیار
شکست شہ دیں سے ہے آشکار
نہ وہ کوکبہ ہے نہ لشکر ہے کل

دم آب ہووے گا نایاب وھاں
نہ کنبہ قبیلہ نہ احباب وھاں
نہ دولت سرا وہ نہ اسباب وھاں
نہ ساماں نہ سر ہے نہ سرور ہے کل

تن نازنیں ہوگا گھائل تمام
بلا ہوگا اس ایک پر ازدحام
جبیں سے بہے گا لہو لعل فام
گلوے مبارک پہ خنجر ہے کل

بچے گا جو بیٹا سو ہوگا اسیر
عزیز حرم سب بحال تغیر
بکا کرتے ہیں ہوں گے صغیر و کبیر
کہاں ایسی غارت سے وہ گھر ہے کل

سکینہ کہے گی پدر کیا ہوا
کرے دل دہی جو گلے سے لگا
نہ کلثوم کے پاس ہوگی ردا
نہ زینب کے تارک پہ معجر ہے کل

قیامت ہے اودھر کو ہوگا گذار
جدھر اس طرح کا ہوا کارزار
نظر آوے گی لاش شہ ایک بار
نہ ہوگا وہ ساماں نہ وہ سر ہے کل

فلک حال پر تیرے روتے ہیں آہ
کہاں ہوں گے یہ دیدۂ مہر و ماہ
جہاں ان کی آنکھوں میں ہوگا سیاہ
کرے سوجھتا تو تو بہتر ہے کل

نہ ہووے گا سادات میں مرد ایک
مگر عابدیں زار اور زرد ایک
زمیں سے اٹھے گی سیہ گرد ایک
سپہر بریں تک مکدر ہے کل

سر شہ سناں پر رکھا جاوے گا
لٹا قافلہ بھی چلا جاوے گا
بس اب مت لکھے کیا لکھا جاوے گا
زمانہ ہی اے میرؔ دیگر ہے کل


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.