فلک قتل سبط پیمبر ہے کل
فلک قتل سبط پیمبر ہے کل
یہ ہنگامہ ہونا مقرر ہے کل
سحر شام تیرہ سے بدتر ہے کل
بلا کل مکل ہے کہ محشر ہے کل
کہاں ہوگا افسر سر شہ کہاں
یہ خیمہ کہاں اور خرگہ کہاں
جو کچھ ہے حشم آج سو یہ کہاں
نہ حاکم نہ یاور نہ داور ہے کل
نہ ہوگا کوئی جو کرے داوری
رہے گی وہ لاش اس زمیں پر پڑی
نگہبان ہوگا خداے قوی
مصیبت عجیب ایک اس پر ہے کل
نہ ہوگا کوئی یار و انصار آہ
نہ خویش و برادر نہ رتبہ نہ جاہ
مرے گا بہت ہوکے بیکس وہ شاہ
نہ قاسم نہ اکبر نہ اصغر ہے کل
جو بازو ہیں جاویں گے سب دے کے جاں
نظر جس کے اوپر کرے سو کہاں
ستم ہوگا چاروں طرف سے عیاں
نہ احمدؐ معاون نہ حیدر ہے کل
نہ عباس ہوگا نہ ہوگا علم
کہ ہاتھ اس کا بازو سے ہوگا قلم
رہیں گے جو پیچھے کسان حرم
سو ان کو نہ جاگہ نہ گھر در ہے کل
سر شہ نہ ہوگا یہ اسرار ہے
کسان حرم اور بازار ہے
رہے گا جو سجاد بیمار ہے
سو اس کو نہ دارو نہ بستر ہے کل
معزز حرم کے رہیں گے جو لوگ
پریشاں پھریں گے گرفتار سوگ
اسیری و غارت سے چالوں کو روگ
نہ پردہ انھوں کو نہ چادر ہے کل
جہاں جاے عبرت ہے کیا اعتبار
ہمیشہ نہیں ایک کا اختیار
شکست شہ دیں سے ہے آشکار
نہ وہ کوکبہ ہے نہ لشکر ہے کل
دم آب ہووے گا نایاب وھاں
نہ کنبہ قبیلہ نہ احباب وھاں
نہ دولت سرا وہ نہ اسباب وھاں
نہ ساماں نہ سر ہے نہ سرور ہے کل
تن نازنیں ہوگا گھائل تمام
بلا ہوگا اس ایک پر ازدحام
جبیں سے بہے گا لہو لعل فام
گلوے مبارک پہ خنجر ہے کل
بچے گا جو بیٹا سو ہوگا اسیر
عزیز حرم سب بحال تغیر
بکا کرتے ہیں ہوں گے صغیر و کبیر
کہاں ایسی غارت سے وہ گھر ہے کل
سکینہ کہے گی پدر کیا ہوا
کرے دل دہی جو گلے سے لگا
نہ کلثوم کے پاس ہوگی ردا
نہ زینب کے تارک پہ معجر ہے کل
قیامت ہے اودھر کو ہوگا گذار
جدھر اس طرح کا ہوا کارزار
نظر آوے گی لاش شہ ایک بار
نہ ہوگا وہ ساماں نہ وہ سر ہے کل
فلک حال پر تیرے روتے ہیں آہ
کہاں ہوں گے یہ دیدۂ مہر و ماہ
جہاں ان کی آنکھوں میں ہوگا سیاہ
کرے سوجھتا تو تو بہتر ہے کل
نہ ہووے گا سادات میں مرد ایک
مگر عابدیں زار اور زرد ایک
زمیں سے اٹھے گی سیہ گرد ایک
سپہر بریں تک مکدر ہے کل
سر شہ سناں پر رکھا جاوے گا
لٹا قافلہ بھی چلا جاوے گا
بس اب مت لکھے کیا لکھا جاوے گا
زمانہ ہی اے میرؔ دیگر ہے کل
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |