فکر
by مجاز لکھنوی

نہیں ہر چند کسی گمشدہ جنت کی تلاش
اک نہ اک خلد طرب ناک کا ارماں ہے ضرور
بزم دو شنبہ کی حسرت تو نہیں ہے مجھ کو
میری نظروں میں کوئی اور شبستاں ہے ضرور

مٹ کے برباد جہاں ہو کے سبھی کچھ کھو کے
بات کیا ہے کہ زیاں کا کوئی احساس نہیں
کار فرما ہے کوئی تازہ جنون تعمیر
دل مضطر ابھی اماجگۂ یاس نہیں

تازہ دم بھی ہوں مگر پھر یہ تقاضا کیوں ہے
ہاتھ رکھ دے مرے ماتھے پہ کوئی زہرہ جبیں
ایک آغوش حسیں شوق کی معراج ہے کیا
کیا یہی ہے اثر نالۂ دل ہائے حزیں

مہ وشوں کا طرب انگیز تبسم کیا ہے
ہے تو سب کچھ یہ مگر خواب اثر کیوں ہو جائے
حسن کی جلوہ گہہ ناز کا افسوں تسلیم
یہی قرباں گۂ ارباب نظر کیوں ہو جائے

میں نے سوچا تھا کہ دشوار ہے منزل اپنی
اک حسیں بازوے سیمیں کا سہارا بھی تو ہے
دشت ظلمات سے آخر کو گزرنا ہے مجھے
کوئی رخشندہ و تابندہ ستارہ بھی تو ہے

آگ کو کس نے گلستاں نہ بنانا چاہا
جل بجھے کتنے خلیل آگ گلستاں نہ بنی
ٹوٹ جانا در زنداں کا تو دشوار نہ تھا
خود زلیخا ہی رفیق مہ کنعاں نہ بنی

بہ ایں انعام وفا اف یہ تقاضائے حیات
زندگی وقف غم خاک نشیناں کر دے
خون دل کی کوئی قیمت جو نہیں ہے تو نہ ہو
خون دل نذر چمن بندئ دوراں کر دے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse