فکر رنج و راحت کیسی

فکر رنج و راحت کیسی
by وزیر علی صبا لکھنؤی
303386فکر رنج و راحت کیسیوزیر علی صبا لکھنؤی

فکر رنج و راحت کیسی
دوزخ کیسا جنت کیسی

بدلی ان کی عادت کیسی
الٹی اپنی قسمت کیسی

ہر شے میں ہے اس کا جلوہ
کثرت میں ہے وحدت کیسی

آپس میں اے گبرو مسلماں
ناحق ناحق حجت کیسی

الفت میں ذلت رکھی ہے
عزت کیسی حرمت کیسی

زہد زاہد لا حاصل ہے
بے گاری کو اجرت کیسی

سن کر میری سینہ کوبی
بولے وہ یہ نوبت کیسی

چشم وحدت بیں کے آگے
آئینے کی صورت کیسی

مر جائیں گے ہم فرقت میں
رہ جائے گی حسرت کیسی

عالم ہے اے مہ رو تجھ پر
شہروں میں ہے شہرت کیسی

اٹھیں گے جب وہ صحبت سے
برہم ہوگی صحبت کیسی

بے خود ہو جا میری صورت
اے صوفی یہ حالت کیسی

دنیا کے جھگڑوں سے چھوٹے
مر کر پائی فرصت کیسی

زلفوں کے پھندوں سے نکلے
ٹالی سر سے آفت کیسی

فصل گل کے آتے آتے
سو جاتی ہے وحشت کیسی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.