فکر عقبیٰ ہے مجھے خواہش دنیا ہے مجھے
فکر عقبیٰ ہے مجھے خواہش دنیا ہے مجھے
عیش کی دھن ہے مجھے موت کا دھڑکا ہے مجھے
موت کہتے ہیں جسے ضبط کی تکمیل نہ ہو
کہ تنفس پہ بھی فریاد کا دھوکا ہے مجھے
حسن وہ چاہیے جو عشق کا آئینہ بنے
یعنی اپنے لئے اپنی ہی تمنا ہے مجھے
تم نہ گھبراؤ مجھے تم سے کوئی کام نہیں
اپنی خواہش ہے مجھے اپنی تمنا ہے مجھے
یہ تو معلوم نہیں ان کا ارادہ کیا ہے
ہاں نگاہ غلط انداز سے دیکھا ہے مجھے
ہجر کی شب ادھر اللہ ادھر وہ بت ہے
دیکھنا یہ ہے کہ اب کون بلاتا ہے مجھے
ایک بت ایک ہی بت کا ہوں پجاری اخترؔ
اپنے اس شرک پہ توحید کا دعویٰ ہے مجھے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |