فہمیدہ ہے جو تجھ کو تو فہمید سے نکل
فہمیدہ ہے جو تجھ کو تو فہمید سے نکل
اور دید کا جو شوق ہے تو دید سے نکل
زنداں ہجر میں ہمیں سونپا تھا عشق نے
آئے ہیں ہم نصیبوں کی تائید سے نکل
قالب میں میرے یارو بھلا کیا سماوی دم
جب جان کو کہے کوئی تاکید سے نکل
تشبیب میں بھی لطف ہے اک اے قصیدہ گو
اتنا شتاب بھی تو نہ تمہید سے نکل
مصرع کو پہنچے مصرعۂ ثانی برا ہے کیا
کر لے نکاح عالم تجرید سے نکل
کر تو عیوب نظم سے پرہیز اے فلاں
شاعر ہے تو تنافر و تعقید سے نکل
ہیں یاد کب اے مری وحشت کے رنگ ڈھنگ
مجنوں گیا ہے دشت کو تقلید سے نکل
وہ مست میں نہیں ہوں کہ مستوں کی کھا کے دھول
جاؤں شراب خانۂ توحید سے نکل
ہو مصحفیؔ تو علم الٰہی کا آشنا
قید عناصر اور موالید سے نکل
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |