قائل بھلا ہوں نامہ بری میں صبا کے خاک
قائل بھلا ہوں نامہ بری میں صبا کے خاک
پھرتی ہے وہ بھی گلیوں میں اکثر اڑا کے خاک
کہتا ہوں سوز دل سے کہ کر چک جلا کے خاک
ایک بات پر جو یار نے جانی اٹھا کے خاک
کیا کانپتا ہے نالۂ سوزاں سے اے فلک
جب بات تھی کہ مجھ کو کیا ہو جلا کے خاک
پانی نکل کے دشت میں جاری ہے جا بجا
یارب گیا ہے کون یہ سر پر اڑا کے خاک
دامن اٹھا اٹھا کے جو بچتا ہوا چلا
کیوں ہوویں مر کے کوچے میں اس بے وفا کے خاک
رضواں عبیر خلد سے بدلوں نہ زینہار
خوشبو ہے کوچہ میں وہ مرے مہ لقا کے خاک
عارفؔ کو یارو ہم تو سمجھتے تھے اہل دیں
دریا میں لوگ آئے ہیں اس کی بہا کے خاک
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |