قاصد ترے بار بار آئے
قاصد ترے بار بار آئے
ایک ہفتہ میں تین چار آئے
قاتل پہ جو سر کو وار آئے
بار تن زار اتار آئے
آشفتگی ہو نصیب دشمن
تم زلف نہ کیوں سنوار آئے
اب کی جو نہ چھوٹے فصل گل میں
پھر دیکھیے کب بہار آئے
دل میں نہیں اس کی کچھ کدورت
آئینہ پہ کیا غبار آئے
جھولی رہی اپنی گل سے خالی
دامن میں الجھ کے خار آئے
گل کھانا مرا تپ الم سے
بلبل جو سنے بخار آئے
آیا جو سخیؔ مۂ محرم
ہم بزم میں اشک بار آئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |