قبر میں اب کسی کا دھیان نہیں
قبر میں اب کسی کا دھیان نہیں
سچ ہے جب جی نہیں جہان نہیں
بند بلبل ہی کی زبان نہیں
ورنہ گل تو ہلاتے کان نہیں
دل نے خود الفت کمر کی ہے
اس میں کچھ میرا درمیان نہیں
ابھی کیا کیا نہ ہوگا حرج نصیب
ہم نہیں ہیں کہ امتحان نہیں
دیر کیوں زاہدوں نے چھوڑ دیا
کیا بتوں میں خدا کی شان نہیں
شمس کیسا چمک کے نکلا ہے
آج میرا جو مہربان نہیں
بات کیا ہے سخیؔ جو وہ ہم سے
ایسے چپ ہیں کہ کچھ بیان نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |