قبر پر ہوویں دو نہ چار درخت
قبر پر ہوویں دو نہ چار درخت
ایک کافی ہے سایہ دار درخت
تھا میں دیوانہ گور پر ہے ضرور
بید مجنوں کا سایہ دار درخت
ہوں وہ بد بخت میرے سائے سے
خشک ہوتے ہیں بار دار درخت
تو جو اے سرو باغ میں جائے
ثمر و گل کریں نثار درخت
پست ہوں تجھ سے غیرت طوبیٰ
ایک کیا ہوں اگر ہزار درخت
واہ رے میرے آہ کے جھونکے
اڑتے پھرتے ہیں کاہ وار درخت
میں جو تاثیر آہ دکھلاؤں
کوہ ہل جائیں درکنار درخت
باغ ہستی میں ضعف پیری سے
رندؔ ہوں مثل بیخ خار درخت
باغباں کیوں نہ جانے اس کو فضول
کر چکے اپنی جب بہار درخت
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |