قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
پر ترے عہد سے آگے تو یہ دستور نہ تھا
رات مجلس میں ترے حسن کے شعلے کے حضور
شمع کے منہ پہ جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا
ذکر میرا ہی وہ کرتا تھا صریحاً لیکن
میں نے پوچھا تو کہا خیر یہ مذکور نہ تھا
باوجودے کہ پر و بال نہ تھے آدم کے
وہاں پہنچا کہ فرشتے کا بھی مقدور نہ تھا
پرورش غم کی ترے یاں تئیں تو کی دیکھا
کوئی بھی داغ تھا سینے میں کہ ناسور نہ تھا
محتسب آج تو مے خانے میں تیرے ہاتھوں
دل نہ تھا کوئی کہ شیشے کی طرح چور نہ تھا
دردؔ کے ملنے سے اے یار برا کیوں مانا
اس کو کچھ اور سوا دید کے منظور نہ تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |