قصد جب تیری زیارت کا کبھو کرتے ہیں
قصد جب تیری زیارت کا کبھو کرتے ہیں
چشم پر آب سے آئینے وضو کرتے ہیں
کرتے اظہار ہیں در پردہ عداوت اپنی
وہ مرے آگے جو تعریف عدو کرتے ہیں
دل کا یہ حال ہے پھٹ جائے ہے سو جائے سے اور
اگر اک جائے سے ہم اس کو رفو کرتے ہیں
توڑیں اک نالے سے اس کاسۂ گردوں کو مگر
نوش ہم اس میں کبھو دل کا لہو کرتے ہیں
قد دل جو کو تمہارے نہیں دیکھا شاید
سرکشی اتنی جو سرو لب جو کرتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |