قطرہ دریائے آشنائی ہے
قطرہ دریائے آشنائی ہے
کیا تری شان کبریائی ہے
تیری مرضی جو دیکھ پائی ہے
خلش درد کی بن آئی ہے
وہم کو بھی ترا نشاں نہ ملا
نارسائی سی نارسائی ہے
کون دل ہے جو دردمند نہیں
کیا ترے درد کی خدائی ہے
جلوۂ یار کا بھکاری ہوں
شش جہت کاسۂ گدائی ہے
موت آتی ہے تم نہ آؤگے
تم نہ آئے تو موت آئی ہے
بچھ گئے راہ یار میں کانٹے
کس کو عذر برہنہ پائی ہے
ترک امید بس کی بات نہیں
ورنہ امید کب بر آئی ہے
مژدۂ جنت وصال ہے موت
زندگی محشر جدائی ہے
آرزو پھر ہے در پئے تدبیر
سعی ناکام کی دہائی ہے
موت ہی ساتھ دے تو دے فانیؔ
عمر کو عذر بے وفائی ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |