قطرہ دریائے آشنائی ہے

قطرہ دریائے آشنائی ہے
by فانی بدایونی
299779قطرہ دریائے آشنائی ہےفانی بدایونی

قطرہ دریائے آشنائی ہے
کیا تری شان کبریائی ہے

تیری مرضی جو دیکھ پائی ہے
خلش درد کی بن آئی ہے

وہم کو بھی ترا نشاں نہ ملا
نارسائی سی نارسائی ہے

کون دل ہے جو دردمند نہیں
کیا ترے درد کی خدائی ہے

جلوۂ یار کا بھکاری ہوں
شش جہت کاسۂ گدائی ہے

موت آتی ہے تم نہ آؤگے
تم نہ آئے تو موت آئی ہے

بچھ گئے راہ یار میں کانٹے
کس کو عذر برہنہ پائی ہے

ترک امید بس کی بات نہیں
ورنہ امید کب بر آئی ہے

مژدۂ جنت وصال ہے موت
زندگی محشر جدائی ہے

آرزو پھر ہے در پئے تدبیر
سعی ناکام کی دہائی ہے

موت ہی ساتھ دے تو دے فانیؔ
عمر کو عذر بے وفائی ہے


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.