قفس کی تیلیوں سے لے کے شاخ آشیاں تک ہے

قفس کی تیلیوں سے لے کے شاخ آشیاں تک ہے
by بیدم وارثی
298815قفس کی تیلیوں سے لے کے شاخ آشیاں تک ہےبیدم وارثی

قفس کی تیلیوں سے لے کے شاخ آشیاں تک ہے
مری دنیا یہاں سے ہے مری دنیا وہاں تک ہے

زمیں سے آسماں تک آسماں سے لا مکاں تک ہے
خدا جانے ہمارے عشق کی دنیا کہاں تک ہے

خدا جانے کہاں سے جلوۂ جاناں کہاں تک ہے
وہیں تک دیکھ سکتا ہے نظر جس کی جہاں تک ہے

کوئی مر کر تو دیکھے امتحاں گاہ محبت میں
کہ زیر خنجر قاتل حیات جاوداں تک ہے

نیاز و ناز کی روداد حسن و عشق کا قصہ
یہ جو کچھ بھی ہے سب ان کی ہماری داستاں تک ہے

قفس میں بھی وہی خواب پریشاں دیکھتا ہوں میں
کہ جیسے بجلیوں کی رو فلک سے آشیاں تک ہے

خیال یار نے تو آتے ہی گم کر دیا مجھ کو
یہی ہے ابتدا تو انتہا اس کی کہاں تک ہے

جوانی اور پھر ان کی جوانی اے معاذ اللہ
مرا دل کیا تہ و بالا نظام دو جہاں تک ہے

ہم اتنا بھی نہ سمجھے عقل کھوئی دل گنوا بیٹھے
کہ حسن و عشق کی دنیا کہاں سے ہے کہاں تک ہے

وہ سر اور غیر کے در پر جھکے توبہ معاذ اللہ
کہ جس سر کی رسائی تیرے سنگ آستاں تک ہے

یہ کس کی لاش بے گور و کفن پامال ہوتی ہے
زمیں جنبش میں ہے برہم نظام آسماں تک ہے

جدھر دیکھو ادھر بکھرے ہیں تنکے آشیانے کے
مری بربادیوں کا سلسلہ یارب کہاں تک ہے

نہ میری سخت جانی پھر نہ ان کی تیغ کا دم خم
میں اس کے امتحاں تک ہوں وہ میرے امتحاں تک ہے

زمیں سے آسماں تک ایک سناٹے کا عالم ہے
نہیں معلوم میرے دل کی ویرانی کہاں تک ہے

ستم گر تجھ سے امید کرم ہوگی جنہیں ہوگی
ہمیں تو دیکھنا یہ تھا کہ تو ظالم کہاں تک ہے

نہیں اہل زمیں پر منحصر ماتم شہیدوں کا
قبائے نیلگوں پہنے فضائے آسماں تک ہے

سنا ہے صوفیوں سے ہم نے اکثر خانقاہوں میں
کہ یہ رنگیں بیانی بیدمؔ رنگیں بیاں تک ہے


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.