قفل صد خانۂ دل آیا جو تو ٹوٹ گئے

قفل صد خانۂ دل آیا جو تو ٹوٹ گئے
by محمد ابراہیم ذوق

قفل صد خانۂ دل آیا جو تو ٹوٹ گئے
جو طلسمات نہ ٹوٹے تھے کبھو ٹوٹ گئے

سیکڑوں کاسہ سر دہر میں مانند حباب
کبھو اے چرخ بنے تجھ سے کبھو ٹوٹ گئے

ٹانکے کیا جیب کے پھر بعد رفو ٹوٹ گئے
ہو کے ناخن کبھی سینے میں فرو ٹوٹ گئے

تو جو کہتا ہے کہ دے غیر کو بھی ساغر مے
ہاتھ کیا اس کے ہیں اے آئینہ رو ٹوٹ گئے

کیونکے بن کشتیٔ مے کیجیے سیر دریا
مے کشو زیر بغل اب تو کدو ٹوٹ گئے

دیکھ کر سرمے کی تحریر تری آنکھوں میں
کافروں کے بھی ہیں زنار گلو ٹوٹ گئے

صدمۂ غم سے ترے جوں گل بازی افسوس
سارے اعضا مرے اے عربدہ جو ٹوٹ گئے

سنگ غیرت سے کئی آئینے اے عہد شکن
دیکھ کر صاف ترا روئے نکو ٹوٹ گئے

تیر دل سے وہ نکلتے ہیں کوئی جذبۂ شوق
نکلے سوفار جو سینے سے گلو ٹوٹ گئے

دل شکستہ ہی رہا بعد فنا بھی میں تو
کہ مری خاک سے بنتے ہی سبو ٹوٹ گئے

شدت گریہ سے تھا رات یہ اشکوں کا ہجوم
چشم تر پھر مرے مژگاں کے ہیں مو ٹوٹ گئے

گلشن عشق میں اللہ ہے کیا کثرت بار
بن ہوا کتنے ہی نخل لب جو ٹوٹ گئے

کہہ بہ تبدیل قوافی غزل اک اور بھی ذوقؔ
دیکھیں بٹھلائے ہے کس طرح سے تو ٹوٹ گئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse