قیامت ہیں یہ چسپاں جامے والے
قیامت ہیں یہ چسپاں جامے والے
گلوں نے جن کی خاطر خرقے ڈالے
وہ کالا چور ہے خال رخ یار
کہ سو آنکھوں میں دل ہو تو چرا لے
نہیں اٹھتا دل محزوں کا ماتم
خدا ہی اس مصیبت سے نکالے
کہاں تک دور بیٹھے بیٹھے کہیے
کبھو تو پاس ہم کو بھی بلا لے
دلا بازی نہ کر ان گیسوؤں سے
نہیں آساں کھلانے سانپ کالے
تپش نے دل جگر کی مار ڈالا
بغل میں دشمن اپنے ہم نے پالے
نہ مہکے بوئے گل اے کاش یک چند
ابھی زخم جگر سارے ہیں آلے
کسے قید قفس میں یاد گل کی
پڑے ہیں اب تو جینے ہی کے لالے
ستایا میرؔ غم کش کو کنھوں نے
کہ پھر اب عرش تک جاتے ہیں نالے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |