قیامت ہے جو ایسے پر دل امیدوار آئے

قیامت ہے جو ایسے پر دل امیدوار آئے
by بیخود دہلوی

قیامت ہے جو ایسے پر دل امیدوار آئے
جسے وعدے سے نفرت ہو جسے ملنے سے عار آئے

مری بے تابیاں چھا جائیں یارب ان کی تمکیں پر
تڑپتا دیکھ لوں آنکھوں سے جب مجھ کو قرار آئے

مٹا دوں اپنی ہستی خاک کر دوں اپنے آپے کو
مری باتوں سے گر دشمن کے بھی دل میں غبار آئے

اجازت مانگتی ہے دخت رز محفل میں آنے کی
مزا ہو شیخ صاحب کہہ اٹھیں بے اختیار آئے

خدا جانے کہ وہ بیخودؔ سے اتنے بد گماں کیوں ہیں
کہ ہر جلسے میں فرماتے ہیں دیکھو ہوشیار آئے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse