قیس کا تجھ میں جنوں جذبۂ منصور نہیں

قیس کا تجھ میں جنوں جذبۂ منصور نہیں
by برجموہن دتاتریہ کیفی
318398قیس کا تجھ میں جنوں جذبۂ منصور نہیںبرجموہن دتاتریہ کیفی

قیس کا تجھ میں جنوں جذبۂ منصور نہیں
ورنہ منزل گہہ دل دار تو کچھ دور نہیں

کوہ و وادی وہی بجلی وہی بے ہوشی بھی
جلوہ لیکن وہ دل افروز سر طور نہیں

ڈھونڈنے جاؤں کسے جاؤں تو میں جاؤں کہاں
دل کے جو پاس ہے وہ آنکھ بھی کچھ دور نہیں

پھیر میں ذات و صفت کے نہ سراسیمہ ہو
نہیں معلوم کہ جوہر سے عرض دور نہیں

نظر آتا نہیں تجھ کو تو ہے آنکھوں کا قصور
عکس سے شخص حقیقت میں ذرا دور نہیں

جلوہ ساماں ہے رہ عشق میں ذرہ ذرہ
صاحب ذوق نظر منتظر طور نہیں

امر حق حرف ازل ہے تو یہ فتوے کیسے
وہ نئی بات نہیں میں کوئی منصور نہیں

جھوٹ سچ اس کو ہے یکساں وہ ہے اپنی دھن کا
حق شناسی مرے نقاد کا دستور نہیں

کبر ہی سے تو عزازیل ہے شیطان رجیم
آدمی ہے وہی انسان جو مغرور نہیں

کیا تماشا ہے لئے جاتے ہیں تقدیر کا نام
اور تدبیر سے اک لحظہ بھی معذور نہیں

نہیں تقدیر کی تحریر سے انکار مگر
اس میں تدبیر مقدر ہے جو مذکور نہیں

آپ تقدیر سدھر جائے گی تدبیر تو کر
کون کہتا ہے کہ انسان کو مقدور نہیں

تو عوارض سے عوارض کی ہے تجھ سے پرواز
تو جو مطلق نہیں مختار تو مجبور نہیں

ذرے ذرے کو ہے اک فرض ودیعت حق سے
نہ سمجھ تو کوئی قیصر نہیں فغفور نہیں

کار گاہ عمل اس دہر کو وہ سمجھے ہیں
گل و بلبل کے کرشموں سے جو ماتور نہیں

کل میں مل جل کے رہے جز کا اسی میں ہے وقار
فرد ناچیز ہے گر شامل جمہور نہیں

کیوں کھچے رہتے ہیں یہ شیخ و برہمن باہم
دیر کعبہ سے جو حق پر ہو نظر دور نہیں

ادب و شعر کا عالم ہے وہ وحدت آئیں
کہ جہاں کافر و دیں دار کا مذکور نہیں

حد جغرافیہ سے شعر کی دنیا ہے جدا
دور کیلاس سے دو گز بھی یہاں طور نہیں

کیف باقی ہے وہ اس میں کہ نہیں جس کو خمار
بادۂ شعر کوئی بادۂ انگور نہیں

ساقئ مست نظر ہے یہ فسوں یا اعجاز
سب کو مدہوش کیا آپ تو مخمور نہیں

ساغر اک اور بھی دے پیر مغاں کیفیؔ کو
نشۂ بیخودیٔ عشق میں وہ چور نہیں


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.