لاکھ پردے سے رخ انور عیاں ہو جائے گا
لاکھ پردے سے رخ انور عیاں ہو جائے گا
پردہ کھل جائے گا ہر پردہ کتاں ہو جائے گا
جوہر تیغ اصالت سب عیاں ہو جائے گا
امتحاں کے وقت اپنا امتحاں ہو جائے گا
تو اگر اے ماہ آ نکلا کسی دن بعد مرگ
پردۂ خاک مزار اپنا کتاں ہو جائے گا
پیچ زلفوں کے جو کھل جائیں گے روئے یار پر
سنبل تر آتش گل کا دھواں ہو جائے گا
تو وہ گل رو ہے کہ تجھ کو دیکھ کر نکلے گی جان
بلبل روح و رواں بے آشیاں ہو جائے گا
روئے رنگیں کی حکایت نظم اگر کرنے لگیں
برقؔ سب دیواں ہمارا بوستاں ہو جائے گا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |