لب بہ لب نبت العنب ہر دم رہے

لب بہ لب نبت العنب ہر دم رہے
by شاد لکھنوی

لب بہ لب نبت العنب ہر دم رہے
دور دور جام مے جم جم رہے

ذکر قمری بھی جو کرتے ہم رہے
اس سہی قامت کا بھرتے دم رہے

دود خط ہو یا دخان زلف ہو
جس جگہ دھونی رمائی رم رہے

شوخ کیسا ہے عقیق سرخ ہو
لعل لب سے رنگ میں مدھم رہے

ناتوانی نے بٹھایا جس جگہ
پھر نہ اٹھے لیس ہو کر جم رہے

جب میں رویا بارش باراں ہوئی
کھل گیا منہ اشک جس دم تھم رہے

شادؔ پیچھا کر کے غول نفس کا
راہ حق بھولے بھٹکتے ہم رہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse