لب جاں بخش کے میٹھے کا تیرے جو مزہ پایا
لب جاں بخش کے میٹھے کا تیرے جو مزہ پایا
تو چشمہ زندگی کا اپنی لبریز بقا پایا
نہ ہوئے کیوں بصد جاں دل مرا مفتوں ترا جاناں
کہ ہر جلوے میں تیرے یک کرشمہ میں جدا پایا
دوبالا کیوں نہ ہو نشہ دل حیراں کی حیرت کا
جو تجھ کو سب میں اور تیرے میں سب کو برملا پایا
تری اک گردش مژگاں سے یوں بے تاب و طاقت ہوں
نہ کہہ سکتا ہوں کچھ گر کوئی پوچھے تو نے کیا پایا
نہ دنیا اس میں رہ پاوے نہ عقبیٰ اس کو پھیلاوے
دل آگاہؔ کے کوثر میں جن نے انزوا پایا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |