لب چپ ہیں تو کیا دل گلہ پرداز نہیں ہے

لب چپ ہیں تو کیا دل گلہ پرداز نہیں ہے
by شوق قدوائی

لب چپ ہیں تو کیا دل گلہ پرداز نہیں ہے
سب کچھ ہے خموشی میں اک آواز نہیں ہے

کتنا ہی وہ جھڑکیں میں کہے جاتا ہوں اپنی
غیرت مری اب کچھ خلل انداز نہیں ہے

پہونچوں گا ضرور آج میں اس شوخ کے گھر میں
دیوار تو نیچی ہے جو در باز نہیں ہے

اس سمت مرض عشق کا انجام کو پہونچا
اس سمت توجہ کا بھی آغاز نہیں ہے

کیا سادہ دلی ہے کہ تری چین جبیں کو
میں ناز سمجھتا ہوں مگر ناز نہیں ہے

مرنا تھا کہ صحت مرض عشق سے پائی
اب کچھ بھی طبیعت ناساز نہیں ہے

کیوں سچ یہ کہا اس نے کہ الفت نہیں مجھ سے
یہ عیب ہی ظالم میں کہ دم باز نہیں ہے

روتے ہوئے جینے سے اجل عشق میں اچھی
مردے میں یہ خوبی ہے کہ غماز نہیں ہے

ذلت مجھے منظور مگر آؤں ترے گھر
کیا حرج محبت کا جو اعزاز نہیں ہے

کیوں بیٹھے ہیں ہم وعدۂ محبوب پہ خوش خوش
کیا کھوئے تلون بھی در انداز نہیں ہے

اے شوقؔ کہے دیتی ہے کچھ شکل خموشی
چپ کیوں ہو اگر دل میں کوئی راز نہیں ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse