لجیائی سے نازک ہے اے جان بدن تیرا
لجیائی سے نازک ہے اے جان بدن تیرا
اب چھو نہیں سکتے ہم پھولا یہ چمن تیرا
آنکھیں تری نرگس ہیں رخسار ترے گل ہیں
چٹواتا ہے ہونٹھوں کو یہ سیب ذقن تیرا
ناخن ترے سورج ہیں اور چاند ہتھیلی ہے
آئینہ خود رو ہے شفاف بدن تیرا
دنداں ترے موتی ہیں خورشید سا ماتھا ہے
در جھڑتے ہیں باتوں میں ایسا ہے دہن تیرا
اس سے تجھے نفرت ہے غیروں سے محبت ہے
کب بھائے گا اخترؔ کو اے جان چلن تیرا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |