لجیائی سے نازک ہے اے جان بدن تیرا

لجیائی سے نازک ہے اے جان بدن تیرا
by واجد علی شاہ
304176لجیائی سے نازک ہے اے جان بدن تیراواجد علی شاہ

لجیائی سے نازک ہے اے جان بدن تیرا
اب چھو نہیں سکتے ہم پھولا یہ چمن تیرا

آنکھیں تری نرگس ہیں رخسار ترے گل ہیں
چٹواتا ہے ہونٹھوں کو یہ سیب ذقن تیرا

ناخن ترے سورج ہیں اور چاند ہتھیلی ہے
آئینہ خود رو ہے شفاف بدن تیرا

دنداں ترے موتی ہیں خورشید سا ماتھا ہے
در جھڑتے ہیں باتوں میں ایسا ہے دہن تیرا

اس سے تجھے نفرت ہے غیروں سے محبت ہے
کب بھائے گا اخترؔ کو اے جان چلن تیرا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.