لطف نہاں سے جب جب وہ مسکرا دئیے ہیں
لطف نہاں سے جب جب وہ مسکرا دئیے ہیں
میں نے بھی زخم دل کے ان کو دکھا دئیے ہیں
کچھ حرف آرزو تھا کچھ یاد عیش رفتہ
جتنے تھے نقش دل میں ہم نے مٹا دیئے ہیں
فرط غم و الم سے جب دل ہوا ہے گریاں
اس نے عنایتوں کے دریا بہا دیئے ہیں
دیکھے ہیں تیرے تیور دھوکا نہ کھائیں گے اب
اٹھتے تھے ولولے کچھ ہم نے دبا دیئے ہیں
اس دل نشیں ادا کا مطلب کبھی نہ سمجھے
جب ہم نے کچھ کہا ہے وہ مسکرا دیئے ہیں
شوخ کر دیا ہے چھڑیوں سے ہم نے تم کو
کچھ حوصلے ہمارے تم نے بڑھا دیئے ہیں
کوئی تجھ کو دیکھے پردہ اٹھانے والے
تو نے تجلیوں کے پردے گرا دیئے ہیں
کرتا ہوں وحشتؔ ان سے عرض نیاز پنہاں
اس کام کے طریقے دل نے بتا دیئے ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |