لوگ کہتے ہیں محبت میں اثر ہوتا ہے

لوگ کہتے ہیں محبت میں اثر ہوتا ہے
by غلام علی ہمدانی مصحفی

لوگ کہتے ہیں محبت میں اثر ہوتا ہے
کون سے شہر میں ہوتا ہے کدھر ہوتا ہے

اس کے کوچے میں ہے نت صورت بیداد نئی
قتل ہر خستہ بانداز دگر ہوتا ہے

نہیں معلوم کہ ماتم ہے فلک پر کس کا
روز کیوں چاک گریبان سحر ہوتا ہے

ووہیں اپنی بھی ہے باریک تر از مو گردن
تیغ کے ساتھ یہاں ذکر کمر ہوتا ہے

کر کے میں یاد دل اپنے کو بہت روتا ہوں
جب کسی شخص کا دنیا سے سفر ہوتا ہے

اس کی مژگاں کا کوئی نام نہ لو کیا حاصل
میرا ان باتوں سے سوراخ جگر ہوتا ہے

مصحفیؔ ہم تو ترے ملنے کو آئے کئی بار
اے دوانے تو کسی وقت بھی گھر ہوتا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse