لگتے ہیں نت جو خوباں شرمانے باؤلے ہیں

لگتے ہیں نت جو خوباں شرمانے باؤلے ہیں
by غلام علی ہمدانی مصحفی

لگتے ہیں نت جو خوباں شرمانے باؤلے ہیں
ہم لوگ وحشی خبطی دیوانے باؤلے ہیں

یہ سحر کیا کیا ہے بالوں کی درہمی نے
جو اس پری پر اپنے بیگانے باؤلے ہیں

جی جھونکتا ہے کوئی آتش میں ناحق اپنا
جلتے ہیں شمع پر جو پروانے باؤلے ہیں

عصمت کا اپنی اس کو جب آپھی غم نہ ہووے
لگتے ہیں ہم جو ناحق غم کھانے باؤلے ہیں

اس مے کا ایک قطرہ سوراخ دل کرے ہے
بھر بھر جو ہم پئیں ہیں پیمانے باؤلے ہیں

گردش سے پتلیوں کی سرگشتہ ہے زمانہ
مستی سے اس نگہ کی مے خانے باؤلے ہیں

جاتے ہیں اس گلی میں لڑکوں کو ساتھ لے کر
میاں مصحفیؔ بھی یارو کیا سیانے باؤلے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse