لیتے لیتے کروٹیں تجھ بن جو گھبراتا ہوں میں
لیتے لیتے کروٹیں تجھ بن جو گھبراتا ہوں میں
نام لے لے کر ترا راتوں کو چلاتا ہوں میں
غیر جب کہتا ہے اس پر میں بھی مرتا ہوں تب آہ
وہ تو کیا مرتا ہے بس غیرت سے مر جاتا ہوں میں
آ نکلتا ہے کبھی پر بات وہ کرتا نہیں
بولتا ہے تو یہ کہتا ہے کہ اب جاتا ہوں میں
تو وہ ہے آتش کا پرکالہ کہ تیرے سامنے
آفتاب آ کر کہے جاڑے سے تھراتا ہوں میں
ناتوانی نے نکل جانے کا ڈر تو کھو دیا
یار کو اب اپنے مر جانے سے دھمکاتا ہوں میں
گر چلیں راہ طلب میں توڑ ڈالوں اپنے پاؤں
بس کبھی ساقی کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہوں میں
ابر کو دیکھا جو ساقی نے نگاہ مست سے
رعد بولا اب مئے گل رنگ برساتا ہوں میں
دوڑتے ہیں پاؤں جب دامان صحرا کی طرف
ہاتھ بھی سوئے گریباں ساتھ دوڑاتا ہوں میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |