لے کے دل اس شوخ نے اک داغ سینے پر دیا
لے کے دل اس شوخ نے اک داغ سینے پر دیا
جو لیا اس کا عوض اس سے مجھے بہتر دیا
دور تجھ سے ساغر مے پر نظر میں نے جو کی
کاسہ اپنا چشم نے خوناب دل سے بھر دیا
جو سلوک اب دل میں آویں کر مجھے تقدیر نے
دست و بازو باندھ کر تیرے حوالے کر دیا
دلبروں کے شہر میں بیگانگی اندھیر ہے
آشنائی ڈھونڈتا پھرتا ہوں میں لے کر دیا
بعضے ہی اوقات راحت ہم کو دی ہے چرخ نے
رنج و غم ہی اس ستم گر نے بیاںؔ اکثر دیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |