ماتم دید ہے دیدار کا خواہاں ہونا

ماتم دید ہے دیدار کا خواہاں ہونا
by قلق میرٹھی

ماتم دید ہے دیدار کا خواہاں ہونا
جس قدر دیکھنا اتنا ہی پشیماں ہونا

سخت دشوار ہے آسان کا آساں ہونا
خون فرصت ہے یہاں سر بہ گریباں ہونا

تیرا دیوانہ تو وحشت کی بھی حد سے نکلا
کہ بیاباں کو بھی چاہے ہے بیاباں ہونا

کوچۂ غیر میں کیوں کر نہ بناؤں گھر کو
میری آبادی سے آباد ہے ویراں ہونا

خاک وحشی سے اگر ربط ہے ٹھوکر کو تری
دور دامن سے نہیں دور گریباں ہونا

نہ وہ خوں ہی ہے جگر میں نہ وہ رونے کا دماغ
مل گیا خاک میں ہر اشک کا طوفاں ہونا

جی کا جی ہی میں رہا حرف تمنا افسوس
کہنا کچھ آپ ہی اور آپ پشیماں ہونا

دل سے انداز شکن زلف نے سب جمع کیے
چھیڑ کر اس کو کہیں تو نہ پریشاں ہونا

تجھ کو ارمان خرابی ہے جو اے دہلی اور
سیکھ جا گھر میں مرے رہ کے بیاباں ہونا

دل ہے اک قطرۂ خوں جس پہ یہ سینہ زوری
کچھ سمجھتا ہی نہیں ہم صف مژگاں ہونا

مجھ میں کچھ تاب ہو اے جاں تو میں بے تاب رہوں
ورنہ دشوار ہے اس راز کا پنہاں ہونا

یاد مژگاں سے ادھر زخم جگر پر کھانا
اور ادھر شورش دل سے نمک افشاں ہونا

آج وہ وقت قلقؔ پر ہے کہ جوں ابن خلیل
غیر تسلیم نہیں قتل کا آساں ہونا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse