مار ڈالے گی ہمیں یہ خوش بیانی آپ کی

مار ڈالے گی ہمیں یہ خوش بیانی آپ کی
by رشید لکھنوی

مار ڈالے گی ہمیں یہ خوش بیانی آپ کی
موت کا پیغام آئے گا زبانی آپ کی

زندگی کہتے ہیں کس کو موت کس کا نام ہے
مہربانی آپ کی نا مہربانی آپ کی

بعد مردن کھینچ لایا جذب دل سینے پہ ہاتھ
اک انگوٹھی میں جو پہنے تھا نشانی آپ کی

بڑھ چکا قد بھی فروغ حسن کی حد ہو چکی
اب تو قابل دیکھنے کے ہے جوانی آپ کی

آپ سے مل کے گلے راحت سے آ جاتی ہے نیند
سبزۂ خوابیدہ ہے پوشاک دھانی آپ کی

رنگ عالم کا بدلنا آپ کے صدقے میں ہے
جمع کر رکھی تھیں پوشاکیں پرانی آپ کی

آنکھوں پر بندھوائی پٹی تا نہ دیکھوں اور کو
مر گیا میں پر وہی ہے بد گمانی آپ کی

جب وہ مجھ کو دیکھتا ہے ہنس کے کہتا ہے رشیدؔ
کتنی پابند وفا ہے زندگانی آپ کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse