مانگو ہو ابھی دل مجھے نادان سمجھ کر

مانگو ہو ابھی دل مجھے نادان سمجھ کر
by عبدالرحمان احسان دہلوی

مانگو ہو ابھی دل مجھے نادان سمجھ کر
پھر دوں گا جواب اس کا مری جان سمجھ کر

بچ جائیوں کمبخت مری بخت سیہ سے
یاں آئیو تو اے شب ہجران سمجھ کر

کیا کام مہ نو سے مجھے میں اسے ہر دم
دیکھوں ہوں ترا عکس گریبان سمجھ کر

رنگ اپنا ہوا سنتے ہی ملتانی کی مٹی
تو کیجو سفر جانب ملتان سمجھ کر

نو روز ہے اور ساقیٔ کوثر کا ہے اب دور
ایذا دے مجھے گردش دوران سمجھ کر

کلکتہ میں الفت کی گورنر ہے سدا عشق
آمادہ ہو تو رستم دستان سمجھ کر

میجر نے جنوں کی ہے یہ تیار کی پلٹن
ہاں دیکھ صف خار مغیلان سمجھ کر

جرنیل تو صحرا میں ہیں اور کوہ میں کرنیل
ہے شہر میں چھوڑا مجھے کپتان سمجھ کر

کیا محتسب شہر کد و بیر سے لے گا
ہم کرتے ہیں پیمانہ سے پیمان سمجھ کر

یا رب میں کہاں جاؤں کہ ہر دم بت کافر
ایذا مجھے دیتا ہے مسلمان سمجھ کر

حب بکنے لگا شب کو جو وہ غصہ سے منعم
اک رحم سا آیا مجھے ہذیان سمجھ کر

ارمان سے ارمان ہے ارمان نہ تو نے
ارمان نکالے مرے ارمان سمجھ کر

دل سرد ہے تم سے کہ بایں گرم تپا کے
یک شب بھی نہ یاں سوئے زمستان سمجھ کر

میاں بوس ابھی لوں گا دھری رہویگی تروار
گالی نہ سنا سب کو تو یکسان سمجھ کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse