مبتلا یہ دل ہوا جب یار ننگا ہو گیا
مبتلا یہ دل ہوا جب یار ننگا ہو گیا
شمع بے پردہ ہوئی قرباں پتنگا ہو گیا
گر پڑے عشاق اس کی تیغ خوں آشام پر
کل شہادت کے طلب گاروں کا دنگا ہو گیا
دفن کر کے فاتحہ پڑھ کے مرا بولا وہ شوخ
آج بیمار محبت میرا چنگا ہو گیا
بزم میں جل کر کیا شب راز الفت آشکار
شمع کے مانند پروانہ بھی ننگا ہو گیا
گر کے اس کے کوچۂ تاریک میں نکلا نہ دل
پیچ زلف یار کا مجھ کو اڑنگا ہو گیا
وصف دیر و کعبہ کا ہم نے جداگانہ کیا
ایک ہی مضمون تھا فقرہ دو رنگا ہو گیا
بڑھتے بڑھتے اپنا طول زندگانی کم ہوا
گھٹتے گھٹتے جامۂ ہستی اٹنگا ہو گیا
خوش نما ہے اس رخ روشن پہ کیا خال سیاہ
زیب گلزار ارم کا لا بھجنگا ہو گیا
شاہ ہفت اقلیم سے اے دل گدائے دہر تک
ڈھنگ سے آیا وہاں سے یاں کڈھنگا ہو گیا
جس قدر وہ مجھ سے بگڑا میں بھی بگڑا اس قدر
وہ ہوا جامہ سے باہر میں بھی ننگا ہو گیا
یوں کہیں گے یار اقلیم سخن میں ان دنوں
منتہیؔ بھی ایک ہی کٹا دبنگا ہو گیا
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.
| |