مثل سرمد طالب حق بیں اگر سرداد داد
مثل سرمد طالب حق بیں اگر سرداد داد
دیکھ لے منصور نے جی دار پر استاد داد
عشق ہے اے دل کٹھن کچھ خانۂ خالہ نہیں
رکھ دلیرانہ قدم تا تجھ کو ہو امداد داد
ہو نہیں سکتی ہے جس کی گوش زد فریاد داد
جس نے آباداں میرے دل کا نگر برباد داد
رشک دنیا ہے کسی نے کیوں برائے چند روز
زندگی اپنے تئیں افسوس یا میعاد داد
کس سے ہو سکتا ہے جو اس نے کیا عالم کے ساتھ
صورت خاکی میں کیسا کچھ دم ایجاد داد
خرم و خورسند اک عالم ہے پر حیراں ہوں میں
کیوں مجھے خاطر حزیں ہوئے دل ناشاد داد
آفریدیؔ اس شکار انداز سے کیونکر بجے
دام میں جس کے ہے سب خلقت ازاں صیاد داد
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |