مجھے در سے اپنے تو ٹالے ہے یہ بتا مجھے تو کہاں نہیں
مجھے در سے اپنے تو ٹالے ہے یہ بتا مجھے تو کہاں نہیں
کوئی اور بھی ہے ترے سوا تو اگر نہیں تو جہاں نہیں
پڑی جس طرف کو نگاہ یاں نظر آ گیا ہے خدا ہی واں
یہ ہیں گو کہ آنکھوں کی پتلیاں مرے دل میں جائے بتاں نہیں
مرے دل کے شیشے کو بے وفا تو نے ٹکڑے ٹکڑے ہی کر دیا
مرے پاس تو وہی ایک تھا یاں دکان شیشہ گراں نہیں
مجھے رات ساری ہی تیرے ہاں کٹے کیوں کے روتے نہ شمع ساں
کہ ہو سکے ہے کچھ اب بیاں نہ یہ بات ہے کہ زباں نہیں
کوئی سمجھے کیوں کے یہ مدعا کہ پہیلی سا ہے یہ ماجرا
کہا میں تجھے نہیں چاہ کیا لگا کہنے مجھ سے کہ ہاں نہیں
نہ ملا ہمیں کوئی نکتہ داں یہ بپت سنا دیں بھلا کہاں
نہ ہوا سبھوں پہ وہی عیاں جو کسو سے یاں تو نہاں نہیں
تجھے درد کیوں کہ سناؤں میں نہ خدا کسی کو دکھائے یہ
جو کچھ اپنے جی پہ گزرتی ہے کہوں کیا کہ اس کا بیاں نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |