مجھ سے اب صاف بھی ہو جا یوں ہی یار آپ سے آپ

مجھ سے اب صاف بھی ہو جا یوں ہی یار آپ سے آپ
by بخش ناسخ

مجھ سے اب صاف بھی ہو جا یوں ہی یار آپ سے آپ
جس طرح ہے تری خاطر میں غبار آپ سے آپ

کب کہا آتش فرقت سے جلایا تو نے
ہیں مرے نالۂ دل صاعقہ بار آپ سے آپ

خار تدبیر ہے پیش گل تقدیر عبث
وقت پر باغ میں آتی ہے بہار آپ سے آپ

دونوں عالم میں اگر ایک نہیں شعبدہ باز
جمع کیوں کر ہوئے اضداد یہ چار آپ سے آپ

نہیں آتا جو وہ خورشید مرے گھر میں نہ آئے
صبح ہو جائے گی آخر شب تار آپ سے آپ

کچھ شکایت نہیں عشق کمر نازک کی
ہو گیا ہوں میں صنم زار و نزار آپ سے آپ

او وجود چمن آرائے ازل کے منکر
خود بخود گل ہوئے موجود نہ خار آپ سے آپ

سرخ پوشاک پہن کر وہ سہی قد جو گیا
جل اٹھے سرو چمن مثل چنار آپ سے آپ

زلف کو چھو کے پڑا ہے جو بلا میں اے دل
کاٹ کھاتا ہے کسی کو کوئی مار آپ سے آپ

کچھ تری تیغ جفا کی نہیں تقصیر اے گل
صورت غنچہ مرا دل ہے فگار آپ سے آپ

غیر کا منہ ہے کہ لے بوسے ترے او ظالم
نیلگوں ہو گئے ہوں گے یہ عذار آپ سے آپ

نالہ کش مثل جرس کیوں ہے عبث اے مجنوں
صبر کر آئے گی جمازہ سوار آپ سے آپ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse