مجھ سے عاشق کے تئیں مار کے کیا پاوے گا
مجھ سے عاشق کے تئیں مار کے کیا پاوے گا
مفت بدنامی تجھے ہووے گی پچھتاوے گا
جو ترا عاشق رفتار ہے جوں نقش قدم
تیرے کوچے کے تئیں چھوڑ کہاں جاوے گا
غیر کے کہنے پر اے یار نہ کہیو ہرگز
یہ سمجھ رکھیو وہ شیطان ہے بہکاوے گا
دہر میں تیرے فریبوں سے اے شوخ عیار
کم کوئی ہوگا نہ دل جس کا دغا پاوے گا
یار کو طرز جفا سے نہیں رکھنے کا باز
ناصحا ہر گھڑی مجھ کو ہی تو سمجھاوے گا
آشنائی نہ جہاں دارؔ سے توڑ اے پیارے
ایسا عاشق نہ جہاں میں تو کوئی پاوے گا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |