مجھ سے چھپ کر مرے ارمانوں کو برباد نہ کر
مجھ سے چھپ کر مرے ارمانوں کو برباد نہ کر
داد خواہی کے لیے آیا ہوں بیداد نہ کر
دیکھ مٹ جائے گا ہستی سے گزر جائے گا
دل نا عاقبت اندیش انہیں یاد نہ کر
آ گیا اب تو مجھے لطف اسیری صیاد
ذبح کر ڈال مگر قید سے آزاد نہ کر
جس پہ مرتا ہوں اسے دیکھ تو لوں جی بھر کے
اتنی جلدی تو مرے قتل میں جلاد نہ کر
آپ تو ظلم لگاتار کئے جاتے ہیں
مجھ سے تاکید پہ تاکید ہے فریاد نہ کر
جلوہ دکھلا کے مرا لوٹ لیا صبر و قرار
پھر یہ کہتے ہیں کہ تو نالہ و فریاد نہ کر
آپ ہی اپنی جفاؤں پہ پشیمان ہیں وہ
ان کو محجوب زیادہ دل ناشاد نہ کر
اے صبا کوچۂ جاناں میں پڑا رہنے دے
خاک ہم خاک نشینوں کی تو برباد نہ کر
ہم تو جب سمجھیں کہ ہاں دل پہ ہے قابو بیدمؔ
وہ تجھے بھول گئے تو بھی انہیں یاد نہ کر
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |