مجھ کو اب ساقیٔ گلفام سے کچھ کام نہیں
مجھ کو اب ساقیٔ گلفام سے کچھ کام نہیں
مے سے کچھ کام نہیں جام سے کچھ کام نہیں
دل میں خوش آئی ہیں صحرا کی ببولیں پر خار
اب کسی سرو گل اندام سے کچھ کام نہیں
اپنے آرام سے ہوں دشت جنوں میں تنہا
کسی محبوب دل آرام سے کچھ کام نہیں
خانہ برباد ہوں صحرا میں بگولوں کی طرح
سقف و دیوار و در و بام سے کچھ کام نہیں
طائر روح رمیدہ کی طرح چھوٹا ہوں
اب تو صیاد ترے دام سے کچھ کام نہیں
طبع روشن کو نہیں خوف سیہ روزی کا
صبح محشر ہوں مجھے شام سے کچھ کام نہیں
اتنی مدت سے ہوں غربت میں وطن بھول گیا
مجھ کو اب نامہ و پیغام سے کچھ کام نہیں
ہے فراق بت خود کام میں ناسخؔ کا کلام
ہوں میں ناکام مجھے کام سے کچھ کام نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |