مجھ کو مسند پہ قلمداں بخشا
مجھ کو مسند پہ قلمداں بخشا
شیر قالیں کو نیستاں بخشا
پیر کنعاں کو دیا داغ فراق
ایک زن کو مہ کنعاں بخشا
مرض عشق میں موت آتی ہے
تو نے ہر درد کو درماں بخشا
قابل دید ہے حسن حکمت
حور کو روضۂ رضواں بخشا
قطرہ بھی وسعت رحمت سے ہے بحر
چشم کو نوح کا طوفاں بخشا
دل نالاں کو دیے داغ فراق
ایک بلبل کو گلستاں بخشا
دل بے رحم دیا ظالم کو
جس طرح تیر کو پیکاں بخشا
گل کو پر زر جو گریباں بخشا
خار کو دشت کا داماں بخشا
رحم آیا جو گنہ گاروں پر
گنہ گبر و مسلماں بخشا
آ گیا کچھ جو کریمی کا خیال
حور کو ملک سلیماں بخشا
تیری تدبیر ہے عین تقدیر
موت کو عالم امکاں بخشا
سرخ رو اہل کرم کو رکھا
بحر کو پنجۂ مرجاں بخشا
لب کی جا بوسۂ رخسار دیا
عوض لعل بدخشاں بخشا
مصحف رخ کا جو دیکھا کوئی شعر
روح حافظؔ کو بھی قرآں بخشا
اس سے ہوں طالب ایماں اے عرشؔ
جس نے کافر کو بھی ایماں بخشا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |