محبت ابتدا میں کچھ نہیں معلوم ہوتی ہے
محبت ابتدا میں کچھ نہیں معلوم ہوتی ہے
مگر پھر دشمن ایمان و دیں معلوم ہوتی ہے
وجود ذات عکس عالم ہستی سے ہے ثابت
تری صورت ہی صورت آفریں معلوم ہوتی ہے
میں ملنا چاہتا ہوں تجھ سے ایسے طور پر جا کر
جہاں تیری تجلی بھی نہیں معلوم ہوتی ہے
گئے ہم دیر سے کعبے مگر یہ کہہ کے پھر آئے
کہ تیری شکل کچھ اچھی وہیں معلوم ہوتی ہے
تری برق تجلی کے چلن ہم سے کوئی پوچھے
چمکتی ہے کہیں لیکن کہیں معلوم ہوتی ہے
ترا اعجاز قدرت ہے کہ ہستی کی نمائش میں
زمانے بھر کو شکل اپنی حسیں معلوم ہوتی ہے
دل مضطرؔ خدا کے واسطے اس سے کنارہ کر
محبت دشمن جان حزیں معلوم ہوتی ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |