محبت ماسوا کی جس نے کی گوری کلوٹی کی
محبت ماسوا کی جس نے کی گوری کلوٹی کی
یقیں کیجو کہ کافر ہو کے اپنی راہ کھوٹی کی
محبت ماسوا اللہ کی ہر کفر سے بد تر
فقیروں نے قناعت تب تو برسیلی لنگوٹی کی
قناعت کا خزینہ گر کسی کے ہاتھ لگ جاوے
نہیں پرواہ رکھتا ہے کسی صراف سوٹی کی
دل قانع کے تئیں نان جویں خوشتر ز تر حلوہ
نہیں ہو احتیاج اس کو پلاؤ گوشت روٹی کی
جگر کھانے میں اپنے فائدہ از بس، تو کیا جانے
وہ جانے چاشنی چکھی ہو جس نے دل کی بوٹی کی
تن لاغر براہ عشق بہتر ہے بچا لا کے
کیا مضغے نے کیا حاصل اگرچہ شکل موٹی کی
اب اس دنیا میں دنیا چھوڑ کر رہنا ہی بہتر ہے
کہانی تھی بڑی لیک آفریدیؔ نے تو چھوٹی کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |