محبت میں تپاک ظاہری سے کچھ نہیں ہوتا
محبت میں تپاک ظاہری سے کچھ نہیں ہوتا
جہاں دل کو لگی ہو دل لگی سے کچھ نہیں ہوتا
یہ ہے جبر مشیت یا مری تقدیر ہے یا رب
سہارا جس کا لیتا ہوں اسی سے کچھ نہیں ہوتا
کوئی میری خطا ہے یا تری صنعت کی خامی ہے
فرشتے کہہ رہے ہیں آدمی سے کچھ نہیں ہوتا
ترے احکام کی دنیا مرے اعمال کا محشر
یہاں میری وہاں تیری خوشی سے کچھ نہیں ہوتا
رضا تیری لکھا تقدیر کا میری زیاں کوشی
کسی کی دوستی یا دشمنی سے کچھ نہیں ہوتا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |