محبت نے کیا کیا نہ آنیں نکالیں
محبت نے کیا کیا نہ آنیں نکالیں
کہ تار قلم نے زبانیں نکالیں
ہوا ہاتھ اس کا لہو سے حنائی
زبس اس نے کشتوں کی جانیں نکالیں
وہ لڑکا تھا جب تک یہ سج دھج کہاں تھی
جواں ہوتے ہی اس نے شانیں نکالیں
لگا تیر سا آ کے مانیؔ کے دل پر
جب ان ابرووں کی کمانیں نکالیں
شبہ کا گماں تھا نہ یاروں کو جس جا
میں واں لعل و گوہر کی کانیں نکالیں
پھسل ہی گیا کلک تصویر مانیؔ
کمر کھینچ کر جوں ہی رانیں نکالیں
زہے کلک صنعت کہ جس نے زمیں پر
بہاریں بنائیں خزانیں نکالیں
گلا ڈوک میں گرچہ تھا مصحفیؔ کا
پر اس پر بھی دو چار تانیں نکالیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |