محبت چاہیے باہم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
محبت چاہیے باہم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
خوشی ہو اس میں یا ہو غم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
غنیمت تم اسے سمجھو کہ اس خم خانہ میں یارو
نصیب اک دم دل خرم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
دلاؤ حضرت دل تم نہ یاد خط سبز اس کا
کہیں ایسا نہ ہو یہ سم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
ہمیشہ چاہتا ہے دل کہ مل کر کیجے مے نوشی
میسر جام مے جم جم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
ہم اپنا عشق چمکائیں تم اپنا حسن چمکاؤ
کہ حیراں دیکھ کر عالم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
رہے حرص و ہوا دائم عزیزو ساتھ جب اپنے
نہ کیونکر فکر بیش و کم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
ظفرؔ سے کہتا ہے مجنوں کہیں درد دل محزوں
جو غم سے فرصت اب اک دم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |