محبت کو کہتے ہو برتی بھی تھی
محبت کو کہتے ہو برتی بھی تھی
چلو جاؤ بیٹھو کبھی کی بھی تھی
بڑے تم ہمارے خبر گیر حال
خبر بھی ہوئی تھی خبر لی بھی تھی
صبا نے وہاں جا کے کیا کہہ دیا
مری بات کم بخت سمجھی بھی تھی
گلہ کیوں مرے ترک تسلیم کا
کبھی تم نے تلوار کھینچی بھی تھی
دلوں میں صفائی کے جوہر کہاں
جو دیکھا تو پانی میں مٹی بھی تھی
بتوں کے لیے جان مضطرؔ نے دی
یہی اس کے مالک کی مرضی بھی تھی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |