محبت کی فطرت ہے یہ بے قراری

محبت کی فطرت ہے یہ بے قراری
by ہوش بلگرامی

محبت کی فطرت ہے یہ بے قراری
کوئی کیا کرے گا مری غم گساری

وہی کامیابی کے اسرار سمجھا
محبت کی بازی یہاں جس نے ہاری

تمہارے اشاروں پہ چلتی ہے دنیا
نہ مختار یاں ہیں نہ بے اختیاری

مرے دل کو پتھر خدارا نہ سمجھو
نگاہیں پھر اس پر نگاہیں تمہاری

محبت کی قسمت میں لکھی ہوئی ہے
یہی درد مندی یہی اشک باری

زمانہ مرا سوز غم کیا سمجھتا
کہ ہر سانس ہے اک نئی شعلہ باری

غم دل سناتا ہوں میں ہوشؔ ان کو
مگر کوئی دیکھے مری بے قراری

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse