محشرستان جنوں میں دل ناکام آیا
محشرستان جنوں میں دل ناکام آیا
نالہ ہنگامہ نوازی پہ سر شام آیا
مہر از روئے معلی جو لب بام آیا
دیکھیے دیکھیے اب دھوپ گئی گھام آیا
برق کی شعلہ نوازی سبب طول حیات
فطرت موت تری زیست کا ہنگام آیا
منتشر ہو گئے جس وقت سب اجزائے حیات
قطرہ دریا میں بہ اندازۂ انجام آیا
توسن عمر گریزاں کی سبک رفتاری
کام دیتی نہیں جب موت کا پیغام آیا
مرکز روح یہ ہے کشمکش موت و حیات
پھر بھی وارفتگئ شوق پہ الزام آیا
میں وہ آسودۂ سوز خلش مژگاں ہوں
جس کو راہ طلب شوق میں آرام آیا
طور سے اک کشش مشق تھی صورت گر شوق
تجھ پر اے وادیٔ ایمن عبث الزام آیا
سرد مہری سے کسی کو جو ہوئی حاجت غسل
گرم جوشی کو بغل میں لیے حمام آیا
زلف کے جال میں معشوق کا سر ہے خود بھی
قیدیوں مژدہ کہ صیاد تہ دام آیا
قبر سے راستہ سیدھا ہے خدا کے گھر کا
جو ادھر جانے لگا باندھ کے احرام آیا
ہے اگر نام اسی کا ادبیات لطیف
تو ظریفؔ اس کو کہیں کیا جسے یہ کام آیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |