محفل عشق میں جو یار اٹھے اور بیٹھے

محفل عشق میں جو یار اٹھے اور بیٹھے
by عبدالرحمان احسان دہلوی

محفل عشق میں جو یار اٹھے اور بیٹھے
ہے وہ ملکہ کہ سبکبار اٹھے اور بیٹھے

رقص میں جب کہ وہ طرار اٹھے اور بیٹھے
بے قراری سے یہ بیمار اٹھے اور بیٹھے

کثرت خلق وہ محفل میں ہے تیری اک شخص
نہیں ممکن ہے کہ یکبار اٹھے اور بیٹھے

سر اٹھانے کی بھی فرصت نہیں دیتا ہے ہمیں
چو حباب سر جو یار اٹھے اور بیٹھے

خوف بدنامی سے تجھ پاس نہ آئے ورنہ
ہم کئی بار سن اے یار اٹھے اور بیٹھے

درد کیوں بیٹھے بٹھائے ترے سر میں اٹھا
کہ قلق سے ترے سو بار اٹھے اور بیٹھے

تیری دیوار تو کیا گنبد دوار بھی یار
چاہئے آہ شرربار اٹھے اور بیٹھے

آپ کی مجلس عالی میں علی الرغم رقیب
بہ اجازت یہ گنہ گار اٹھے اور بیٹھے

آپ سے اب تو اس احقر کو سروکار نہیں
جس جگہ چاہئے سرکار اٹھے اور بیٹھے

حضرت دل سپر داغ جنوں کو لے کر
یوں بر عشق جگر خوار اٹھے اور بیٹھے

چوں دلیرانہ کوئی منہ پہ سپر کو لے کر
شیر خونخوار کو للکار اٹھے اور بیٹھے

کفش دوز ان کے جب اپنے ہی برابر بیٹھیں
ایسی مجلس میں تو پیزار اٹھے اور بیٹھے

زاہد آیا تو گوارا نہیں رندوں ہم کو
اپنی اس بزم میں مکار اٹھے اور بیٹھے

دونوں کانوں کو پکڑ کر یہی ہے اس کی سزا
کہہ دو سو بار یہ عیار اٹھے اور بیٹھے

بیٹھتے اٹھتے اسی طرح کے لکھ اور غزل
جس میں احساںؔ ہو نہ پیکار اٹھے اور بیٹھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse