محفل میں اس پہ رات جو تو مہرباں نہ تھا
محفل میں اس پہ رات جو تو مہرباں نہ تھا
ایسا سبک تھا غیر کہ کچھ بھی گراں نہ تھا
وصل بتاں میں خوف فراق بتاں نہ تھا
گویا کہ اپنے سر پہ کبھی آسماں نہ تھا
پیش رقیب پرسش دل تم نے خوب کی
دشمن تھا پردہ دار نہ تھا راز داں نہ تھا
عبرت دلا چکی تھی ہماری ستم کشی
مطلق شب وصال عدو شادماں نہ تھا
بگڑے ہوئے رقیب سے وہ آئے میرے گھر
اس حسن اتفاق کا کوئی گماں نہ تھا
سرگرم نالہ کیوں رہی بلبل بہار میں
کیا ہم نہ تھے اسیر کہ ذوق فغاں نہ تھا
سرشار بے خودی تھے اثرؔ بزم یار میں
کیا جانیں ہم رقیب کہاں تھا کہاں نہ تھا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |